اس سےدوررہنا کب ہمیں گوارا ہے
کبھی درد جدائی کبھی درد تنہائی
ان سب نےمل کرہمیں مارا ہے
طوفانوں میں گھری ہےکشتی
جہاں سےبڑی دور کنارا ہے
جہاں رہے جس حال میں رہے
ہرحال میں اصغرفقط تمہاراہے
———
دیکھنا میری پسند کیسی ہے
آؤ تم آکے میرا جیون بنادو
مسکرا کے دیکھو اور کائنات کو گواہ بنالو
———
مہک اُٹھے گی گلشنِ رونق تیرے گھر گلاب کھلے گا
رات بھر رہے گا شرم سے آسماں کا چاند جھکا جھکا
زمین پہ کل چاند سے جب میرا چاند ملے گا
تتلیاں ہوں گی قطاروں میں مُنتظر تیرے طواف کی
کیا خوب رنگ اُسکے شہر تیری حَنا کا جمے گا
فضائیں صبح و لنور ہی وُضو کا لبادہ اُڑ رکھیں گی
ایسا جھومیں گا خوشی میں بادل کہ پھر نہ تھمیں گا
رہیں گے شاعر بھی کشمکش میں لکھیں تو کیا لکھیں ہم
شَب گُزر جائے گی سوچوں میں مگر عنوان نہ ملے گا
وقتِ رُخصت نہ ہاتھ ہلانا دیکھ کر افسردہ نگاہوں سے
دریا موجھ میں راہ کر بھی نفیس موجھوں سے نہ ملے گا
———
جو میرے خوابوں میں حیراں دکھائی دیتا ہے
فریب کھا کے محبت کا شہر چھوڑ گیا
وہ میرا اپنا ہے ، ناداں دکھائی دیتا ہے
بنا وہ عشق الہٰی نماز میں ہے کھڑا
مگر صفوں میں نمایاں دکھائی دیتا ہے
ملی نہ اس کو پزیرائی اس زمانے میں
جو شخص فن کا گلستاں دکھائی دیتا ہے
ہوا تھا بردہ فروشوں کے ہاتھوں جو اغوا
وہ بھیک مانگتا انساں دکھائی دیتا ہے
ہمیشہ وصل کی گھڑیاں کبھی نہیں رہتیں
مگر وفا کا وہ درباں دکھائی دیتا ہے
میں اپنی ذات میں خوش ہوں بہت مگر وشمہ
وہ اپنی ذات میں شاداں دکھائی دیتا ہے
———
جس سمت رھے تو خوش ادھر بڑھنے کو جی چاھتا ھے
ویسے تو ملتے ھیں بھتوں سے ھم روز
تم سے جو ملنا ھو تو سنورنے کو جی چاھتا ھے
ویسے تو کتابوں سے لگاو نھیں کچھ خاص
جو کتاب تم چھوؤں اسے پڑنے کو جی چاھتا ھے
ویسے توالفاظ سے کچھ واستھ نھیں ھمارا
پر تیری تعریف میں کچھ لفظ لکھنے کوجی چاھتا ھے
جی تو چاھتا ھے تیرے ساتھ زندگی گزار دو عدنان
تو ھی اگر نہ مل سکے تو پھر مرنے کو جی چاھتا ھے۔
———
روح اور جسم کے رشتے کو سانسوں میں الجھا رکھا ہے
جب سےبخشا ہے تیری چاہت نے مجھےشیشے سا مزاج
تب سے ہر شخص نے ہاتھ میں پتھر اٹھا رکھا ہے
جلوہ گر ہو رہیں ہیں زمانے میں تیری حشر سامانیاں
جب سے تم نے چہرے سے نقاب ہٹا رکھا ہے
کوئ پوچھ نہ لے مجھ سے مری محبت کا آفسانہ
اسی ڈر سے خود کو دنیا سے جدا رکھا ہے
شاہد وہ مل ہی جاے مجھے میری عبادت کے عوذ سلمان
اسی لیے خود کو سجدے میں جھکا رکھا ہے
———
اپنے ہاتھوں کی لکیریں مٹا رہا ہوں
کسی دن تو وہ پتھرآخر موم ہو گا
جسےمیں اپنےدکھڑے سنارہا ہوں
میرےلیےیہی بڑےاعزاز کی بات ہے
جو کبھی اس کا محبوب بھی رہا ہوں
اسےمجھےبھولنے کا پورا حق ہے
میں اس پہ فدا ہوں اور فدا رہا ہوں
تیرےسوا کون سنےمیری آہ وفغاں
کمرےمیں تنہا بیٹھ کرآنسو بہا رہاہوں
———
درد تو میرے ہیں مگر تڑپتے تم ہو
جس سے دست و گریباں ہوئے ہم تمہاری خاطر
اسی رقیب دل کی خاطر سجتے سنورتے تم ہو
گر چھوڑ ہی دینا تھا تو تھاما کیوں تھا ہاتھ
تعبیر نہ یو جن کی، وہ خواب دکھاتے تم ہو
ہم بھی تمہاری آس پر بیٹھے نہیں رہیں گے
اپنے آپ کو کیا آخر سمجھتے تم ہو
بھول چکا ہوں تمہیں، اب چاہت نہیں رہی
گر ایسا ہے تو کیوں ہر جگہ نظر آتے تم ہو
میرا ہی نہیں، تمہارا بھی ہے یہی حال
اب بھی میرے دیدار کو ترستے تم ہو
———
میں بھی خود پر ناز کروں
اگر مسکرانا جرم ہے
میں یہ جرم بار بار کروں
مان جائے وہ اگر
میں جیون اس کے نام کروں
ایسا ہے وہ حسین
میں کیسے اسے پیار کروں
آج بھی اس سا کوئی نہیں
کیسے میں یہ اظہار کروں
ہر بار برسات سا ہے وہ
کیسے میں خود کو نہا ل کروں
آگ لگ جاتی ہے پانی میں
کیسے میں اس پر ناز کروں
اک کہانی سا ہے وہ
کیسے میں اسے بیان کروں
———
مجھ میں بولتے ہو تم
میرے دل میں یادوں کا
زہر گھولتے ہو تم
عشق میں دغا کھا کر
تم کو یاد رکھا ہے
بن کر اشک چہرے پہ
راز کھولتے ہو تم
عشق کی جو گلیوں میں
مجھ کو رولتے ہو تم
بن کہ رقص الفت کا
من میں ڈولتے ہو تم
مجھ میں میں نہیں رہتا
مجھ میں بولتے ہو تم